Add To collaction

16-Dec-2021 حضرت سلیمان علیہ السلام

حضرت سلیمان علیہ السلام
قسط_نمبر_6
چھٹا_حصہ 
ابن عباس ؓ کے مطابق آپ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کاتب تھے، آپ کے خالہ زاد تھے، ولی اللہ تھے اور اسم اعظم جانتے تھے۔ کتاب کا علم سے مراد غالباً اسم اعظم کا علم ہے یعنی تورات اور بعض کے نزدیک اس علم سے مراد درباری رجسٹر اور سرکاری دفتر مراد ہے۔ یعنی آصف برخیا کو ہدایا کے دفتر کے امین ہونے کی وجہ سے یہ علم تھا کہ وہ تخت محل کے کسی حصے میں محفوظ ہے۔
یہ بات البتہ ہو سکتی ہے کہ اللہ نے انھیں کرامت بخشی تھی کہ جس کے سبب انھوں نے جن کی مختصر مہلت کو بھی طویل جانا اور کہا کہ میں پلک جھپکنے میں تخت حاضر کر سکتا ہوں، چنانچہ لمحہ بھر بعد ہی حضرت سلیمان علیہ السلام نے تخت اپنے سامنے موجود پایا۔ تمام اہلِ دربار حیرت زدہ رہ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جس کرسی پر پاؤں رکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام تخت شاہی پر چڑھے تھے اس کے نیچے سے بلقیس سبا کا تخت نکل آیا تو آپ نے فرمایاکہ یہ میرے رب کا فضل ہے جو مجھے آزمانا چاہتا ہے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا بے پروا رہتا ہوں۔ لمحہ بھر میں تخت کی یہاں موجودگی میں میرا یا آصف برخیا کا کوئی کمال نہیں۔ یہ سب اسی کی عطا ہے۔ بہرحال تخت پہنچ گیا۔ آپ علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس تخت کی ہئیت تھوڑی بہت تبدیلی کر دی جائے۔ کچھ ہیرے جواہرات بدل دو۔ رنگ و روغن تبدیل کر دو تاکہ جب وہ یہاں پہنچے تو دیکھا جائے کہ آیا وہ اپنے تخت کو پہچانتی ہے۔ اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ نہیں کہ یہ تخت اسی کا ہے۔ یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر وہ راہِ ہدایت پاتی ہے یا نہیں۔
ملکہ بلقیس سبا دربار سلیمان میں حاضر ہوئی۔ وہ اپنی طرف سے بڑی شان و شوکت اور فخر و ناز کے ساتھ اونٹوں کے ایک قافلے کے ساتھ جس پر عود و عنبر، خوشبویات لدی تھیں، بہت سا سونا اور ہیرے جواہرات لے کر یروشلم آئی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچی تو یقیناً یہ امر اس کے لیے حیران کن تھا کہ اس کے سامنے موجود تخت تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ اس کا اپنا تھا۔ مگر یہ یہاں کیسے آ گیا؟…..کہاں یروشلم، کہاں سبا کا علاقہ، اس کا محل، اس کے محافظ اور کہاں کڑے پہرے میں اس کا تخت۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس شدید پہرے کے باوجود تخت یہاں بیت المقدس میں … حضرت سلیمان علیہ السلام کے دارالسلطنت میں ….. اسے یہاں کون لا سکتا ہے….. کون لایا ہے۔ وہ ابھی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوال کیا کہ کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے؟ ملکہ بلقیس سبا واضح جواب دینے کی قدرت نہ رکھتی تھی۔ مبہم انداز میں بولی۔ گویا یہ وہی تخت ہے یعنی نہ انکار کیا نہ اقرار۔      محتاط جواب دے دیا اور یوں گویا ہوئی کہ ہم تو اس کرامت سے پہلے ہی آپ کی نبوت کے قائل ہو چکے تھے اور وہ جو مشکل سوالات کے جوابات کے حصول کے لیے آئی تھی، سبھی جوابات اسے عطا کیے گئے۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ کیسا ہے۔ یہ ایسا سوال تھا کہ آپ سجدے میں گر پڑے اور خدا تعالیٰ سے فریاد کی کہ اس نے ایسا سوال پوچھ لیا ہے کہ جس کا جواب میں تجھ سے دریافت کرنے کی جرأت نہیں پاتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے فکر ہو جاؤ۔ تمہارا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ آپ علیہ السلام سجدے سے اٹھے تو آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ تم نے کیا سوال کیا تھا۔ سبھی سوال فراموش کر چکے تھے۔ اب حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچا کہ نبوت کے معجزے تو وہ دیکھ چکی ہے۔ اب اسے ظاہری سلطنت اور جاہ و جلال بھی دکھا دیا جائے۔ ملکہ بلقیس سبا کی آمد کی خبر سن کر آپ جنوں کو ایک ایسے محل کی تعمیر کا حکم دے چکے تھے جو شیشے کی چمک لیے ہوئے تھا اور صنعت و حرفت کا بے مثل نمونہ۔ محل میں داخل ہوتے ہی ایک بہت بڑا حوض تیار کیا گیا تھا۔ جس میں پانی بھرا گیا تھا۔ اس پانی میں مچھلیاں اور دیگر آبی جانور موجود تھے۔ شفاف آبگینوں اور شیشوں سے اتنا خوبصورت فرش بنایا گیا تھا جو دیکھنے میں تالاب معلوم ہوتا تھا۔ وہ محل میں داخل ہونے لگی تو غیر ارادی طور پر پائنچے اٹھا لیے کہ کہیں اس کا لباس گیلا نہ ہو جائے۔ یعنی وہ بلور کے فرش کو پانی سمجھی
آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے اب ملکہ نے اس محل کو، اس کے دسترخوان کی نعمتوں کو، اس کے ملازموں کو وحوش و طیور اور جن و انس کی اطاعت و فرماں برداری کو اور آپ علیہ السلام کی حکمت و نبوت کے کرشموں کو دیکھا تو اس کے ہوش جاتے رہے۔ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہ شان و شوکت دیکھی تو اپنا محل اپنی سلطنت ہیچ نظر آنے لگی۔ اسے اپنا وہ محل جو نہایت وسیع و عریض، فنِ تعمیر کا نادر نمونہ تھا، حقیر نظر آنے لگا۔ اس محل کے مغربی و مشرقی حصے میں تین سو ساٹھ، تین سو ساٹھ طاق تھے اور ہر طاق اس انداز سے بنایا گیا تھا کہ ہر روز ایک طاق سے سورج طلوع ہوتا اور مغرب میں اس کے عین سامنے کے طاق سے غروب ہوتا اور دوسرے دن اس سے اگلے طاق سے طلوع ہوتا اور مغربی سمت اگلے طاق میں غروب ہوتا۔ چڑھتے ڈوبتے سورج کی پرستش، ان کا مذہب تھی۔ وہ اپنے محل کو دنیا کے عجائبات میں شمار کرتی رہی تھی، لیکن یہاں جو کچھ اس نے دیکھا تو کہنے پر مجبور ہو گئی کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے ترے کاموں اور تری حکمت کے بارے میں اپنے ملک میں سُنی تھی۔ میں نے ان پر بھی یقین نہ کیا تھا جب تک کہ میں نے یہاں آ کر خود نہ دیکھ لیا۔ بلکہ مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا۔ تیری شان و عظمت تو اس سے کہیں زیادہ ہے جو مجھے معلوم ہوئی تھی۔
ملکہ بلقیس سبا ذہانت و فطانت میں بے مثل تھی۔ وہ جان چکی تھی کہ اس شان و شوکت کا اظہار صرف اس لیے نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے بلکہ اس معجزانہ قدرت کا اظہار اس امر کی جانب اشارہ ہے، اس ہستی کی طرف بلاوا ہے کہ جو ہر چیز پر قادر ہے۔ یوں وہ اپنے شرک پر نادم ہوئی اور اقرار کیا کہ میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے رب کی فرماں بردار اور مطیع ہوتی ہوں۔
واضح رہے کہ اس دور میں عام رواج تھا کہ بادشاہ کا مذہب عوام کا مذہب ہوتا تھا۔ اس لیے ملکہ بلقیس سبا کے ایمان لانے کے ساتھ ہی اس کی پوری قوم بھی بہت ممکن ہے کہ ایمان لے آئی ہو۔
ملکہ بلقیس سبا کے ایمان لانے کے واقعے کے بعد کی تفصیل قرآن پاک میں موجود نہیں۔ مختلف روایات و تفاسیر اور اسرائیلی روایات میں رقم ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس سبا سے نکاح کر لیا تھا، لیکن اسے اس کے ملک پر برقرار رکھا تھا۔ چنانچہ اس کا قیام یمن میں ہی تھا۔ وہاں آپ نے ملکہ سبا کو تین شاندار محل تعمیر کروا کے دیے تھے۔ آپ علیہ السلام ہر ماہ تین روز وہاں قیام فرماتے۔ اہلِ حبشہ، ملکہ سبا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں
جاری ہے 
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   10
5 Comments

fiza Tanvi

14-Jan-2022 04:49 PM

Good

Reply

Ilyana

24-Dec-2021 06:40 PM

Good

Reply

Dr.Abdul Aleem khan

25-Dec-2021 01:07 AM

Thanks

Reply

Rony

24-Dec-2021 06:29 PM

Good

Reply